For a better experience please change your browser to CHROME, FIREFOX, OPERA or Internet Explorer.
Historical struggle of Indian farmers

Historical struggle of Indian farmers

السلام علیکم کسان بھائیوں جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہو کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کسانوں نے نے اپنا حق منوانے کے لئے لیے حکومت کے خلاف دہرنا دیا ہوا ہے ہے اور بھارتی کسانوں کی کی جدوجہد نے نے ایک نیو تاریخ رقم کردی ہے


بھارت کے صوبے ے پنجاب اترپردیش میں میں لاکھوں کسانوں نے نے پولیس اور حکومت کی طرف سے کٹھن رکاوٹوں کا مقابلہ کیا یا اور اور بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اپنا پڑاؤ ڈالا ہوا ہے
: اور اس دھرنے میں کسانوں کے ساتھ ساتھ بھاری اکثریت میں خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا یہ کسان ان مودی حکومت کی زراعت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرنے کے خلاف صف آرا ہیں ہیں بھارت کی تقریبا 20 لاکھ 29 ہزار چار ٹریلین ڈالر معشیت میں سے سے زرعی شعبے کا تقریبا 15 فیصد حصہ بنتا ہے
مگر بھارت کی کی ون پوائنٹ تھری بلین آبادی میں سے سے نصف آبادی کا انحصار زراعت پر ہے بھارتی حکومت کارپوریٹ سیکٹر کو کو زراعت کے شعبہ میں داخل کر کے کے امریکہ جیسا زرعی نظام نافذ کر رہی ہے یہاں پر جو کسان احتجاج کر رہے ہیں ہیں انہوں نے ہرے رنگ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں اگر میں اس دھرنے کی بات کروں تو تو اس دھرنے میں فیض اور غالب کی نظموں کی گونج سنائی دے رہی ہیں اور یہ کسان ان بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ کی کی قربانیوں کو کو یاد کر رہے بھارتی حکومتوں کی کسان دشمن پالیسیوں کی بنا پر ہر سال بہت سے کسان نہ صرف خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کچھ زمین داروں کے تشدد سے ہلاک ہوجاتے ہیں اس دھرنے میں میں مرنے والے کسانوں کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں بھی شامل ہیں ہیں یہ بیویاں اور بیٹیاں اب پہلے سے زیادہ پرجوش نظر آتی ہیں
بھارت کی حکومت نے نے گزشتہ مہینوں پرائیویٹ کمپنیوں کو زرعی شعبے میں کردار کے لیے قانون سازی کی تھی بھارتی پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے اس قانون کے تحت کسان پرائیویٹ کمپنیوں کو زرعی اجناس فروخت کریں گے
بھارت کی حکومت کا دعوی ہے ہے کہ نجی شعبہ سے زرعی شعبہ کی معیشت بہتر ہوگی بھارتی حکومت کی تقریبا 24 سیاسی جماعتوں نے اس قانون کو کالا قانون قرار دے دیا ہےرہنما کانگریس پارٹی اور جدید بھارت کے معمار پنڈت جواہر لعل نہرو کے نواسے کا مداح ہے کہ وزیر اعظم مودی مودی میکنگ فارمر سنو آف کیپیٹل بنانا چاہتے ہیں ،بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے آزادی کے فورا بعد جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا تھا
1964 میں ان کی حکومت وقت نے ایک۔ agriculture producers making committee ایکٹ نافذ کیا تھا
اس قانون کے تحت کسانوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ زرعی اجناس حکومت کی ریگولیٹ کردہ مارکیٹ جیا منڈی میں فروخت کریں گے جہاں مڈل مین کے کسانوں کو ریاست کی قیمت کردہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب اس ایکٹ کی اجارہ داری ختم کر دی گئی ہے مگر حکومت نے زرعی اجناس کی کم قیمت ایم پی ایس کو کو ختم نہیں کیا ہے ،اس قانون کے تحت پورے بھارت میں میں زرعی اجناس فروخت کیا جا سکے گا
اس سے قبل زرعی اجناس کی ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقلی پر پابندی عائد تھی ایک اندازہ کے مطابق اس قانون کے تحت کسانوں کو نجی کمپنیوں سے تحریری معاہدے کرنے ہوں گے اس میں کسانوں کو بہتر منافع کی شرعی گئی ہے مگر بعض ایسی شکیں شامل ہیں کہ کسان ایک طرح سے کمیٹی کا غلام بن جائے گا
کسانوں کے دھرنے کی منظم تنظیموں میں سے ایک بھارتی کسان یونین این کے 53 سالہ بروندر سنگھ لگوال آل اس معاہدہ کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاملہ صرف میشیت کا نہیں بلکہ عزت نفس کا ہیں اس معاہدہ کے تحت کسان کی عزت نفس پامال ہو رہی ہے اور زرعی اجناس پیدا کرنے کے حق حق سے مرحوم ہو جائے گا
اور زرعی اجناس پیدا کرنے کے حق حق سے محروم ہو جائے گا آئے گا وہ حکومت کسانوں کو کارپوریشنز کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس معاہدہ پر عمل درآمد پر کوئی تنازعہ پیدا ہوگا تو کسان اپنے مفاد کا تحفظ نہیں کر سکےگا ان رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ذراعت میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہتی ہے اس صورتحال میں کسان کے پاس صرف ایک راستہ رہ جائے گا وہ راستہ ہے خودکشی
کسان اس بات پر متفق ہے کہ پرانے نظام کی خرابیاں ہیں اس بنا پر زراعت سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتا کہ زراعت کی معیشت میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ حکومت ایک مڈل مین سے دوسرے مڈل مین کی طرف دھکیل دے،کسان اپنے موقف کی تقویت کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ 80 فیصد کسانوں کی زرعی زمین کا رقبہ 2 ایکڑ سے بھی کم ہے اس صورتحال میں کسان کے لیے دور دراز علاقے میں جاکر اپنی پیداوار کو فروخت کرنا ایک مشکل عمل ہے
بھارت کے زرعی شعبے سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نجی شعبہ کو زرعی معیشت میں داخل کر کے یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اب نتائج مثبت ہوں گے مگر صورتحال اس کے بالکل منفی ہے کہ انسانوں کو خطرہ ہے کہ یہاں بھی ابتدائی اقدامات ہیں مستقبل میں کچھ بڑا خطرناک کام ہوگا اور خطرہ ہے کہ حکومت زرعی اجناس کی خریداری کے نظام سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے
کسانوں کی معیشیت کا سارا انحصار سرکاری نظام میں زرعی اجناس کی خریداری پر ہے بھارتی پنجاب میں زرعی شعبہ کی تاریخ کا جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انیس سو ساٹھ میں پنجاب اور ہریانہ میں زرعی اصلاحات کے بعد گیہوں اور دھان کے بیجوں کی مختلف اقسام حکومت نے رائج کی
اجناس کی پیداوار حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی اس بنا پر ساٹھ کی دہائی کو سبز انقلاب کا نام دیا جاتا ہےکسان کو حکومت کے زرعی اجناس کی کم سے کم قیمت مقرر کرنے کے نظام سے خاطر خواہ فائدہ ہوا تھا کہ کسانوں کی اس تحریک کی مزدوروں تنظیموں کی جانب سے بھرپور حمایت مل رہی ہے
مزدور کسان اتحاد زندہ باد کے نعرے ہر طرف گونج رہے ہیں
اس تحریک میں بعض طبقاتی تضادات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں خوشحال جاٹ سکھ کسان اور بے زمین زرعی مزدوروں میں تضادات ابھر کر سامنے آئے ہیں انیس سو ستر میں قائم ہونے والی بڑی کسانوں کی انجمن نیو فارمر موومنٹ نے چھوٹے کسانوں کو بھی اس جدوجہد میں شامل کر لیا ہے
بعض کا کہنا ہے کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے سبز انقلاب کے اثرات ختم ہوچکے ہیں اس زمین کی پیداواری صلاحیت سیم و تھور کی وجہ سے کم ہوگئی ہے یوں زرعی اجناس پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے مگر اجناس کی مناسب قیمت سے نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ بڑے کسان اور بے زمین زرعی مزدوروں کے حالات ناگفتہ ہیں
مرد بھی کھانا تیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
کسانوں کے دھرنے کی گونج سمندر پار تک پھیل گئی ہے کینیڈا اور برطانیہ میں سکھوں نے اس دھرنے سے یکجہتی کے لئے لیے اظہار کیا ہے جس پر مودی حکومت کا غصہ ہے ہے بعض کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے جس طرح دہلی میں شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین پر تشدد کیا تھا وہی طریقے کسان دھرنا کے شرکا پر استعمال کرنا چاہتی ہے مگر کسانوں کا مزدوروں کے ساتھ اتحاد ہے یہ ایک ایک بہت بڑی تحریک ہے
تو ہر سیاسی جماعت اس تحریک کی حمایت کر رہی ہے حکومت کسانوں کو اس ابی لڑائی میں الجھا کر منتشر کرنا چاہتی ہے مگر دھرنا کے شرکا خاص طور پر عورتوں کا عزم ہے کہ جب تک ان کی مانگ پوری نہیں ہوگی وہ واپس نہیں جائیں گے پنجاب کے دونوں طرف کے کسان بدترین استحصال کا شکار ہے یہ جدوجہد فتح کے مظلوموں کو ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے ہے

leave your comment


Your email address will not be published. Required fields are marked *

Top